سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/10/9 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
آخری خبریں اتفاقی خبریں زیادہ دیکھی جانے والی خبریں
  • 10ربیع الثانی(1446ھ)وفات حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے موقع پر
  • 8ربیع الثانی(1446ھ)ولادت امام عسکری علیہ السلام کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1445ھ)عید غدیر خم تاج پوشی امام علی ؑ کے موقع پر
  • 7ذی الحجہ(1445ھ)شہادت امام محمد باقر علیہ السلام کےموقع پر
  • 29ذیقعدہ(1445ھ)شہادت امام محمد تقی علیہ السلام کےموقع پر
  • یکم ذیقعدہ(1445ھ)ولادت حضرت معصومہ(س)کےموقع پر
  • 25شوال(1445ھ)شہادت امام جعفر صادق (ع) کے موقع پر
  • 15 شعبان(1445ھ)منجی عالم حضرت بقیہ اللہ (عج) کی ولادت کے موقع پر
  • اعیاد شعبانیہ (1445ھ)تین انوار ھدایت کی ولادت باسعادت کے موقع پر
  • 25رجب (1445ھ)حضرت امام کاظم علیہ السلام کی شہادت کے موقع پر
  • 13رجب (1445ھ)حضرت امام علی علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر
  • 20جمادی الثانی(1445ھ)حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کے موقع پر
  • 13جمادی الثانی(1445ھ) حضرت ام البنین کی وفات کے موقع پر
  • 17ربیع الاول(1445ھ)میلاد باسعادت صادقین( ع) کے موقع پر
  • رحلت رسولخدا، شہادت امام حسن مجتبیٰ ؑاور امام رضا ؑکے موقع پر
  • 20صفر (1445ہجری) چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر
  • 10محرم (1445ھ)امام حسین( ع)اور آپکے با وفا اصحاب کی شہادت
  • مرحوم آیت اللہ سید عادل علوی (قدس سرہ) کی دوسری برسی کے موقع پر
  • 18ذی الحجہ(1444ھ) عید غدیرخم روز اکمال دین اوراتمام نعمت
  • 15ذی الحجہ(1444ھ)ولادت امام علی النقی علیہ السلام کےموقع پر
  • آخری خبریں

    اتفاقی خبریں

    زیادہ دیکھی جانے والی خبریں

    7ذی الحجہ(1437ھ)شہادت امام محمدباقرعلیہ السلام کے موقع پر


    امام محمد باقر عليہ السلام اور سياسي مسائل

    زيدي شيعوں نے امامت کے معاملہ ميں تلوار کے ساتھ امام کے قيام کو اپنے مذہب کي ايک بنياد قرار ديا ہے۔ زيدي فرقہ کي نظر ميں ايک علوي فرد اس وقت امام قرار پا سکتا ہے جب وہ مسلح تحريک چلائے۔ بصورتِ ديگر وہ اسے امام نہيں سمجھتے تھے۔ اگر زيديوں کے اس عقيدہ کے نتيجہ کي جانب توجہ کي جائے تو وسيع اسلامي مملکت کے گوشہ و کنار ميں نفسِ زکيہ، ان کے بھائي ابراہيم، حسين بن علي معروف بہ شہيد فخ اور بعض دوسرے افراد کے وسيلہ سے کي جانے والي چند پراگندہ اور ناکام تحريکوں کے علاوہ کچھ اور نظر نہيں آتا۔

    جس کا نتيجہ يہ نکلا کہ:

    الف: وہ لوگ خدا کے برگزيدہ بندوں، يعني ائمہ طاہرين کے بجائے ہر اس علوي کے پيچھے چل پڑے جو تلوار اٹھا لے۔

    ب: ثقافتي اعتبار سے تفسير، فقہ و کلام ميں امامي شيعوں کے مقابلہ ميں زيدي شيعہ کوئي منظم اور مربوط ثقافت نہيں اپنا سکے۔ يہ لوگ فقہ ميں تقريباً ابوحنيفہ کے اور کلام ميں پورے طور پر معتزلہ کے پيروکار تھے۔ اس کے مقابلہ ميں شيعہ ائمہ خصوصاً امام باقرٴ اور امام صادقٴ کے علمي اقدامات کي وجہ سے ايسا مکتب پيدا ہوا جس کي اپني ايک خاص اور بھرپور ثقافت تھي، جو بعد ميں مکتبِ جعفري کے نام سے مشہور ہوئي۔ اگرچہ مکتبِ باقري کے نام سے شہرت بھي غلط نہيں ہے۔ يہ فکري مکتب جو تمام معاملات ميں علومِ اہلبيت کو منظم طور پر پيش کرتا ہے، يہ ان دو اماموں کي نصف صدي (سال ٩٤ سے ١٤٨ ہجري تک) کي دن رات کي کوششوں کا نتيجہ ہے۔

    اس زمانے کے سياسي حالات ميں جب کہ اموي اور ان کے بعد عباسي حکمران اپني حکومت کي بقائ کے لئے ہر مخالف طاقت اور ہر مخالفت کو کچل ديا کرتے تھے، ايسے موقف کے انتخاب کے ساتھ طبعي طور پر اہم سياسي اقدامات نہيں کيے جاسکتے تھے۔ اور ہر جگہ واحد خوبي يہي نہيں ہوتي کہ ہر صورت اور ہر قيمت پر سياسي عمل ميں شرکت کي جائے چاہے اس کے لئے معارف حق کے بيان سے چشم پوشي کرني پڑے اور ايک پوري امت پر راستہ ہميشہ کے لئے بند کرديا جائے۔ ائمہ طاہرين نے اس دور ميں اپنا بنيادي موقف يہي قرار دے ديا تھا کہ اسلام کے حقيقي ديني معارف کو بيان کيا جائے اور اپنا اصلي کام يہي چُن ليا تھا کہ مذہبي ثقافت کي تدوين کي جائے اس کا يہ مطلب بھي نہيں ہے کہ ائمہ نے ظالم حکمرانوں کے خلاف کبھي کوئي موقف نہيں اپنايا۔ 

    عقبہ بن بشير نامي ايک شيعہ امام باقرٴ کے پاس آيا اور اپنے قبيلہ ميں اپنے بلند مقام کي طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا: ہمارے قبيلہ ميں ايک عريف (حکومت کي طرف سے منظور شدہ کسي قوم کا ترجمان يا سردار) تھا جو مر چکا ہے۔ قبيلہ کے لوگ چاہتے ہيں کہ مجھے اس کي جگہ عريف بنا ديں۔ آپٴ اس بارے ميں کيا کہتے ہيں؟ امامٴ نے فرمايا:

    کيا تم اپنے حسب اور نسب کا ہم پر احسان جتاتے ہو؟ اللہ تعاليٰ مومنوں کو ان کے ايمان کي وجہ سے بلند مقام ديتا ہے حالانکہ لوگ اسے معمولي سمجھتے ہيں اور کافروں کو ذليل کرتا ہے جبکہ لوگ اسے بڑا سمجھتے ہيں۔ اور يہ جو تم کہہ رہے ہو کہ تمہارے قبيلہ ميں ايک سردار تھا جو مرچکا ہے اور قبيلہ والے تجھے اس کي جگہ پر رکھنا چاہ رہے ہيں، تو اگر تجھے جنت بري لگتي ہے اور وہ تجھے ناپسند ہے تو اپنے قبيلہ کي سرداري کو قبول کرلے کيونکہ اگر حاکم نے کسي مسلمان کا خون بہايا تو تو اس کے خون ميں شريک سمجھا جائے گا اور شايد تجھے ان کي دنيا سے بھي کچھ نہ ملے۔

    يہ روايت بتاتي ہے کہ امامٴ کس طرح سے اپنے شيعوں کو حکومت ميں کسي بھي مقام حتيٰ کہ عريف بننے سے بھي روکتے تھے جس کي کوئي خاص حيثيت بھي نہيں ہوتي تھي۔ اور اس کي دليل يہ تھي کہ لوگوں پر حکمرانوں کے ظلم و ستم اور ان کے گناہوں ميں شيعہ شريک نہ ہوں۔

    امام باقرٴ مختلف طريقوں سے لوگوں کو حکمرانوں پر اعتراض اور ان کو نصيحت کرنے کي ترغيب دلايا کرتے تھے۔ آپٴ سے منقول ايک روايت ميں آيا ہے کہ: "من مشيٰ اليٰ سلطان جائرٍ فامرہ بتقوي اللہ و وعظہ و خوّفہ کان لہ مثل اجر الثقلين من الجن و الانس و مثل اجورھم" جو ظالم حاکم کے پاس جاکر اسے خدا سے ڈرائے اور نصيحت کرے اور اسے قيامت کا خوف دلائے، اس کے لئے جن و انس کا اجر ہے۔

    تقيہ وہ بنيادي ترين ڈھال ہے جس کي آڑ ميں شيعوں نے بنو اميہ اور بنو عباس کے سياہ دورِ حکومت ميں اپني حفاظت کي۔ جيسا کہ امام باقرٴ نے اپنے بابا سے نقل کيا کہ آپٴ نے فرمايا" ان التقيۃَ من ديني و دين آبائي و لادين لمن لاتقيۃَ لہ"بے شک تقيہ ميرا اور ميرے اجداد کا دين ہے۔ اور جس کے پاس تقيہ نہيں اس کے پاس دين نہيں۔

    متعدد تاريخي دلائل اور شواہد واضح طور پر اس بات کا اظہار کرتے ہيں کہ خاندانِ اہلبيت ميں امامت کا دعويٰ موجود رہا ہے۔ اور يہ بات زيادہ تر لوگوں کے لئے اظہر من الشمس تھي اور سب جانتے تھے کہ ائمہ کرام امامت کو صرف اپنا حق سمجھتے ہيں۔ امام باقرٴ اور دوسرے تمام ائمہ حکمرانوں کے کاموں کو باطل اور شرعي طور پر ناجائز قرار ديتے تھے اور اسلامي معاشرے ميں سچي امامت کو برقرار کرنے کي ضرورت کو لوگوں کے لئے بيان کرتے رہتے تھے:

    اسي طرح اے محمد (بن مسلم) اس امت کا جو بھي شخص ظاہر و عادل اور خدا کي طرف سے منصوب امام کے بغير زندگي گزارے وہ گمراہي ميں پڑ گيا اور حيراني و سرگرداني ميں مبتلا ہوا۔ اور اگر اسي حال ميں مر گيا تو کفر و نفاق کي حالت ميں مرا۔ اے محمد! ظالم حکمران اور ان کے پيروکار خدا کے دين سے منحرف ہوگئے ہيں۔ وہ خود بھي گمراہي ميں ہيں اور دوسروں کو بھي گمراہي کي طرف کھينچ رہے ہيں۔ جو کام وہ انجام ديتے ہيں يہ اس راکھ کي مانند ہے جس پر طوفاني دن ميں تيز ہوا چلي ہو اور جو کچھ انہوں نے انجام ديا ہے اس ميں سے کچھ بھي ان کے ہاتھ نہيں آئے گا۔ اور يہ حق سے دور کرنے والي گمراہي کے علاوہ کچھ اور نہيں ہے۔ 

    ان جملات کا قدرتي نتيجہ لوگوں کو اہلبيت کي طرف بڑھانا اور عوام پر حاکموں اور واليوں کے ظلم و ستم کو ظاہر کرنا تھا۔ امامٴ کا بار بار اس بات پر تکيہ کہ نماز، روزہ، حج اور زکاۃ کے ساتھ ولايت بھي اسلام کے پانچ بنيادي احکام ميں سے ايک ہے، يہ بھي اسي بنياد پر تھا۔ جيسا کہ حديث کے بقيہ حصہ ميں ولايت پر تاکيد کي خاطر فرمايا:"ولم يناد بشيئ کما نودي بالولايۃ، فاخذ الناس باربع و ترکوا الولايۃ" خدا نے لوگوں کو ولايت سے بڑھ کر کسي چيز کي طرف نہيں بلايا ہے۔ اس کے باوجود لوگوں نے چار کو لے ليا اور ولايت کو چھوڑ ديا۔

    امام باقرٴ کے زمانے ميں اموي حکام اہلبيت کے معاملہ ميں بہت سخت گيري کرتے تھے اور يہ سخت گيري ان کے امامت اور ديني۔سياسي رہبري کے دعويٰ کي وجہ سے تھي کہ وہ بنواميہ کو غاصب سمجھتے تھے۔ تاريخ (کہ جس کے درست يا غلط ہونے کا کچھ صحيح طور پر معلوم نہيں ہے) بتاتي ہے کہ اموي خلفائ ميں صرف عمر بن عبدالعزيز تھا جس نے اہلبيت کے ساتھ نسبتاً نرم رويہ اپنايا تھا۔ اسي لئے اہلسنت نے امام باقرٴ سے روايت کي ہے آپٴ نے فرمايا:

    عمر بن عبد العزيز نجيب بني اميہ۔ 

    عمر بن عبد العزيز بني اميہ کا نيک آدمي ہے۔

    اموي دور ميں اہلبيت پر سب سے زيادہ سختياں ہشام بن عبد الملک کي جانب سے ہوئيں۔ اسي کے سخت اور توہين آميز جملات تھے جنہوں نے زيد بن علي کو (سال ١٢٢ ہجري ميں) کوفہ ميں قيام کرنے پر مجبور کرديا۔ زيد کے ساتھ ہشام کي ملاقات ميں اس نے حتيٰ کہ امام باقرٴ کي بھي توہين کي اور امويوں کے مخصوص اندازِ تمسخر اور طريقہ اذيت کے مطابق امامٴ کہ جن کا لقب باقر تھا، انہيں ’’بقرہ‘‘ (گائے) کہا۔ زيد اس کي اس جسارت پر بہت ناراض ہوئے اور فرمايا:"سماہ رسول اللہ الباقر و انت تسميہ البقرۃ، لشد ما اختلفتما و لتخالفنہ في الآخرۃ کما خالفتہ في الدنيا فيرد الجنۃ و ترد النار"

    رسول اللہ نے انہيں باقر کہا ہے اور تو انہيں بقرہ (گائے) کہہ رہا ہے۔ تيرے اور رسول اللہ کے درميان کس قدر اختلاف ہے! تو آخرت ميں بھي ان کي اسي طرح مخالفت کرے گا جس طرح سے دنيا ميں کر رہے ہو۔ اس وقت وہ جنت ميں اور تو جہنم ميں داخل ہوگا۔

    امام محمدباقر علیہ السلام کی شہادت         

     آپ اگرچہ اپنے علمی فیوض وبرکات کی وجہ سے اسلام کوبرابرفروغ دے رہے تھے لیکن اس کے باوجودہشام بن عبدالملک نے آپ کوزہرکے ذریعہ سے شہیدکرادیا اورآپ بتاریخ ۷/ ذی الحجہ ۱۱۴ ھ  کومدینہ منورہ میں انتقال فرماگئے اس وقت آپ کی عمر ۵۷/ سال کی تھی آپ جنت البقیع میں دفن ہوئے ۔    

     علامہ شبلنجی اورعلامہ ابن حجرمکی فرماتے ہیں "مات مسموماکابیہ" آپ اپنے پدربزرگوارامام زین العابدین علیہ السلام کی طرح زہرسے شہیدکردیئے گئے ۔

     آپ کی شہادت ہشام کے حکم سے ابراہیم بن ولیدوالی مدینہ کی زہرکے ذریعہ واقع ہوئی ہے ایک روایت میں ہے کہ خلیفہ وقت ہشام بن عبدالملک کی مرسلہ زہرآلودزین کے ذریعہ سے واقع ہوئی تھی ۔

     شہادت سے قبل آپ نے حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے بہت سی چیزوں کے متعلق وصیت فرمائی اورکہا کہ بیٹامیرے کانوں میں میرے والدماجدکی آوازیں آرہی ہیں وہ مجھے جلدبلارہےہیں۔

    آپ نے غسل وکفن کے متعلق خاص طورسے ہدایت کی کیونکہ  امام کوامام ہی غسل دے سکتاہے ۔

     علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنی وصیتوں میں یہ بھی کہاکہ ۸۰۰/ درہم میری عزاداری اورمیرے ماتم پرصرف کرنااورایساانتظام کرناکہ دس سال تک منی میں بزمانہ حج میرے مظلومیت کاماتم کیاجائے  ۔