Deprecated: __autoload() is deprecated, use spl_autoload_register() instead in /home/net25304/al-alawy.net/req_files/model/htmlpurifier-4.4.0/HTMLPurifier.autoload.php on line 17
عوالم کی قسمیں - حج کے اسرار اور معارف
سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/6/30 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
فهرست کتاب‌‌ لیست کتاب‌ها
■ مقدمه
■ حج کا فلسفہ امام سجادعلیہ السلام کی نگاہ میں
■ حج کی عظمت
■ رہبرمعظم انقلاب کا حج کے اجتماعی فوائد کے سلسلےمیں خطاب
■ جناب ابراہیم ،اسماعیل ؑاور ہاجرؑ پر الہی برکات
■ مکہ مکرمہ ،خاطرات اور یادوں کی سرزمین
■ سکندر کا داستان
■ حضرت آدم ؑاور شیطان کا داستان
■ اسلام عام ، خاص اور اخص
■ اسلام خاص
■ اسلام اخصّ
■ حضرت علی ؑکی ایک فضیلت
■ شرک کے اقسام
■ کفر
■ نفاق
■ مرتدّ
■ حسن وجمال کی جھلکیاں
■ انسان کامل
■ نورمعصومین ؑ کی خلقت
■ قرآن کریم کے چار مرحلے
■ حج، ضیافت الھی
■ حجّ ، سير الى الله
■ حج کےدلچسپ نکات
■ بيت الله
■ فلسفہ حج اور اسکے اسباب
■ خلاصہ
■ حجرالاسود
■ عوالم کی قسمیں
■ اسرار حج امام سجّادؑکی زبان سے
■ مواقیت پنچگانہ
■ میقات کیا ہے ؟
■ غسل احرام، حج کا پہلا راز
■ لباس احرام، لباس اطاعت ہے
■ نیت ، خد ا کی اطاعت کا عہد کرنا
■ تلبیہ ،رب الارباب کا قبول کرنا
■ تلبیہ اورلبیک کہنے والوں کے درجات
■ تلبیہ کا راز
■ طواف،دل کا زنگار کو صاف کرنا
■ طواف کے سات چکر کاراز
■ نماز طواف
■ کعبے کا راز
■ رکن یمانی (مستجار) ہے
■ صفا و مروه
■ حلق يا تقصير، خداکےحضورکمال انکساری ہے
■ عرفات
■ مشعر الحرام (اہل عرفان کاطور سینا ) مزدلفہ
■ منى ،امیدوں کی سرزمين ہے
■ قربانى ، لالچ کے گلے کو کاٹناہے
■ رمى جمرات
■ طواف زیارت
■ حج حضرت ابراہیمؑ کے دوسرے بہادر کا قصہ
■ مقام ابراهيم
■ طواف نساء
■ حجر اسماعيلؑ
■ روايات میں وجوب حج کے اسباب
■ نزول حج، غیب کے خزائن سے
■ دل کی نگاہ سے باطن اعمال کا مشاہدہ کرنا

عوالم کی قسمیں

عوالم کی قسمیں

روایات اور احادیث سے ،نیز  علما دین اور عرفأ کے اقوال سےمعلوم ہوتا ہے کہ  دنیا اور ماورأی دنیا کے لئے  قوس نزولی اور  صعودی میں عوالم موجود ہیں    : 1. عالم ناسوت ، 2. عالم ملكوت ، 3. عالم لاهوت ، 4. عالم جبروت ، 5. عالم أنوار، 6. عالم أرواح ، 7. عالم أشباح ، 8. عالم ذرّ.

۱۔ عالم ناسوت :

ہمارا عالم ،عالم ناسوت ہے یعنی عالم دنیائے مادی جو عناصر اربعہ   آگ ،پانی  ،مٹی  اور ہوا پر مشتمل ہے  سارے مادی اجسام ان چار عناصر سے وجود میں آئے ہیں اور ان  مادی موجودات  میں آگ بھی ہے لیکن انسان  اشرف المخلوقات میں سے  ہےاس لئے اس عالم کی نسبت اس کی طرف دی گئی ہے ۔(ناسوت ) ناس سے مشتق ہے جو انسان کا جمع ہے ۔

2ـ عالم انوار:

عالم انوار میں   نورانی اور مجرد موجودات پائے جاتے ہیں اس عالم کی نسبت  ملائکہ یا عقل مجرد کی طرف دی گئی ہے   

3ـ عالم لاهوت:

عالم لاہوت وہی عالم ذات الہی ہے    «لا يعلم ما هو إلّا هو».

 کوئی شخص  خدا کی ذات میں تفکراور سیروسفر کا حق نہیں رکھتا ہے  حتی کہ پیامبر  اکرمﷺ فرماتے ہیں  «ما عرفناک حقّ معرفتک ».اس لئے انسان کو ذات باری تعالی  کے بارے میں بحث کرنے اور ذات اقدس الہی میں تفکر کرنے سےمنع کیا گیا ہے کیونکہ ذات خدا  میں فکر کرنا غلط ہے   اس بحث سے انسان کسی نتیجے تک پہنچ نہیں سکتا ہے ذات خدا میں بحث سے انسان کافر یا ملحد بن جاتا ہے ۔

4. عالم جبروت :  

 وہی صفات خدا کا عالم ہے جواس کی  صفات جمالیہ اور جلالیہ پر مشتمل  ہے صفات جمالیہ  ،یعنی وہی خداکی صفات ثبوتیہ ہیں مثلا  علم ، حیات ،ارادہ قدرت ، کلام ،  صدق  ،سرمدی ہونا ۔۔۔۔۔وغیرہ ہیں  صفات جلاليه، وہی خدا کی صفات سلبیہ ہیں مثلا خدا کے لئے جسم نہیں ہے اور عظمت خدا کی صفات جو ہیبت آور ہیں جیسا  کہ قہّار ہے ، جباّر اور منتقم ہے  ۔

5. عالم ملكوت :

یہ وہی خدا کے افعال کا عالم ہے جیسا کی پہلےبیان ہو چکا   ،ہر زندہ  موجود کے لئے   ،ذات ،صفات اور افعال موجود ہیں  اسی طرح خدا  ، حی اور قیّوم ہے  یہ صفا ت  ظاہری  طور پر خداکے صمدی  اور ذاتی طور پر  مستغنی ہو نے پر دلاکت کرتی ہیں ۔  تمام موجودات  عالم کاوجود میں آ نا،  فعل خدا ہے  لیکن اس  فعل کے صدور کے لئے  بھی  چند مراحل ہیں: عالم  انوار  یا  عالم  ارواح ، عالم اشباح  و   عالم  ذر یا  الست ہے    (اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ)[1] .اللہ تبارک وتعالیٰ زمین اور آسمانوں کا نورہے  خدا چونکہ نور ہے از باب  سنخیّت  نور اس سے ساطع ہوتا ہے ۔  سب سے پہلا نورجو خلق ہوا اور جس نے تجلّی کیا  وہ  میرے پیامبرحضرت محمد ﷺ کا نور ہے  

«أوّل ما خلق الله نوري وروحي ».

 آپ انسان کامل عینی ہیں اور آپ کی کتاب (قران کریم ا نسان کامل تدوینی ہے اور  جہان ہستی انسان کامل تکوینی ہے  جس کی بحث  پہلے گزر گئی ۔

6. عالم أنوار:

 یہ چودہ نور   جو چہاردہ معصومین  کے نام سے مشہور ہے خدا کی ذات سے خلق ہوئے ہیں  اس  مطلب کی طرف زیارت جامعہ کبیرہ میںاشارہ ہوا ہے  ۔  «خلقكم الله أنوارآ فجعلكم بعرشه محدقين ».

اللہ تعا لی نے آپ کو ایسے انوار کی  شکل  میں خلق فرمایا ہے  جو اس کے عرش کے گرد  موجود تھے  ۔اور عالم ارواح میں بھی سب سے پہلے جو روح خلق ہوئی ،وہ حضرت محمّد ﷺ کی نورانی روح تھی ۔   «أوّل ما خلق الله روحي ».

 اس لئے کہ روح  تنہا اور خالی نہ رہے  اس کے لئے  ایک مناسب  ہیکل اور ڈھانچے کی ضرورت ہے  تاکہ  کی صورت میں ظاہر ہو ۔                                                               

7. عالم اشباح :

روایت میں ہے جب اللہ تعالی نے جبرائیل کے ذریعے  آدم ؑ سے کہا :خداکی عرش کا نظارہ  کرو ،تو آدمؑ نے  عرش خدا کی طرف دیکھاآپؑ  کو پانچ نورانی  چھرے نظر آئے حضرت آدم نے ان کے ناموں کے بارے میں جبرائیل ؑ سے پوچھا، تو جبرائیل  ؑ نے جواب میں کہا :یہ انوار مقدسہ   حضرت محمدﷺ،علیؑ ، فاطمہ (س) ، حسنؑ     ،اور حسین ؑ کے ساتھ مخصوص ہیں ۔لہذا حضرت آدم ؑ نے اپنے ہاتھوں کو دعا کے لئے بلند کیا اور کہا:    

«يا حميد بحقّ محمّد، ويا عالي بحقّ علي ، ويا فاطر بحقّ فاطمه ، ويا محسن بحقّ الحسن ، ويا قديم الإحسان بحقّ الحسين اغفرلي » فتاب الله عليه .

اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان  پانچ انوار مقدسہ (اصحاب  کسأ ) کے واسطے  آدم ؑکی توبہ کو قبول  کیا ۔ 

8.عالم ذرّ

الست یا عالم میثاق:  خدا نے جب آدم کو خلق کیا تو آدم ؑ کے صلب (پشت) سے تمام بنی نوع انسان  کو اول سے آخر تک  ذر ّ کی صورت میں پیدا کیا (ذرّ  ایک چھوٹا  حیوان جو چونٹی کی مانند ہے ) ایک اور روایت میں( جو امام ؑ باقر ؑ سے نقل ہوا ہے )بیا ن ہواہے  خدا نے ہمارے شیعوں سے ہماری  ولایت کا عہد وپیمان لیا ہے ۔  اسی وقت خدا نے اپنی بوبیّت اور حضرت محمّد ﷺ کی نبوت کا بھی عہد لیا ہے ۔   

«قال : الستُ بربّكم ؟ قالوا بلي . أليس محمّد نبيّكم ؟ قالوا بلي . أليس عليٌّ أميرالمؤمنين إمامكم ؟ قالوا بلي ».

اللہ تبارک وتعالی نے ان تین  اقراروں کو   تمام بنی نوع  بشر سے   یعنی اولین اور آخرین سے عالم میثاق اور الست میں لیا ہے ،اور سب نے ان تین اقراروں کا اعتراف کیا ہے ۔اس موقعے پر  خدا کے پاس ایک فرشتہ  موجود تھا  خدا نے ان اقراروں کو اس کے ہاتھ میں دیا اور ان سے کہا : قیامت کے دن تمہارے سا منے ان اقراروں کے ذریعے جیسا کہ تم ان پر گواہ بھی ہو ،لوگوں کے مقابلے میں احتجاج کروں گا،  کہ میں نے ان سے اپنی وحدانیّت و ربوبیّت  ومحمّد کی نبوّت اور علی ؑکی امامت اور ولایت  کا اقرار لیا ہے اور لوگوں نے دنیا میں اسے فراموش کیا ہے اور خدا کی وحدانیت  کے بارے میں کافر ہوئے ہیں یا خاتم الانبیا محمد ﷺ کی نبوت کے انکار کی وجہ سے کافر ہوئے ہیں یاامیرالمومنین علیؑ اور انکی اولاد کی امامت  وولایت سے انکار کی وجہ سے کافر ہوگئے ہیں ۔ولایت  خدا کی سب سے بڑی امانت ہے  کہ جسے آسمان ، زمین اور پہاڑ سب نے قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔

 (إِنَّا عَرَضْنَا الاَْمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالاَْرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَن يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الاِْنسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُوماً جَهُولاً)[2] .انسان کامل نےیہ عظیم ذمہ داری ، تعہد اور تسلیم  مطلق کو قبول کرتے ہوئے  اس بار سنگین کو اپنے کاندے پر اٹھایا  ،دوسرے  مخلوقات کوظلم وجہل کی وجہ سے اس سنگین بوجھ کو اٹھانے کی  طاقت نہیں ہوئی اور اس کے حق کو ادا نہیں کر سکے ۔

اس لئے کفر کی تین قسمیں ہیں:1. کفر توحیدی، 2. کفر نبوّتی3.  کفرامامت۔

بعض لوگوں نے اس دنیا میں خدا کو قبول نہیں کیا  ہے جس کے نتیجے میں اور وہ کافر ہوگئے ہیں اور لغت میں کفر کا معنی ستر کرنا اور کس چیز کو چھپانے کا ہے  ۔بعض لوگوں نے حضرت محمدﷺ کوقبول نہیں کیا ہے (مثلا یہود و نصاری ٰاور ادیان دیگر)اور بعض لوگوں نے امامت کو  قبول نہیں کیا ہے (جیسا اہلسنت اور دوسرے تمام فرقے)یہ لوگ بھی انکار  نبوّت اور امامت  کی وجہ سے کافر ہو گئے ہیں ۔ 

بہر حال حضرت آدمؑ جب دنیا میں آئے  اوراسے خانہ کعبہ بنانے کا حکم ہوا ،حضرت آدمؑ نے عرض کیا  پالنے والے !مجھے بہشت کی بہت آرزو ہے اور میرا دل ہر لحظہ بہشت کی یاد کر رہا ہے  اور یہ آب و خاک میرے لئے قید اور قفس بن گیا ہے ۔

میرا وطن وہی تھا جو میں آپ کے محضر میں تھا   اور تیرے فرشتوں کے ساتھ رہتا تھا ۔خدا نے اس ملک اور  فرشتے کو بھی جس کے پاس اقرار وقراردادیں تھیں  پتھر کی شکل میں آدم کے پاس بھیج دیا اور کہا :یہ پتھر ،بہشتی تحفہ ہے اور تمام لوگوں کے اقرار وپیمان اس میں موجود ہیں ۔اس لئے اس کو خانہ کعبہ کے اندر نصب کیا اور یہ وہی حجر الاسود ہے  کہ جسے ہم چومتے ہیں اور کہتے ہیں : "بسم الله وبالله والله أكبر، إشهد لي بالموافاة"

خدا یا تو گواہ رہنا  کہ میں نے عالم ذرّ میں کہا تھا  ’بلیٰ‘اورمیں نے  ابھی تک فراموش نہیں کیا ہے  اور اب بھی  کہتا ہوں ’بلیٰ‘عربی زبان میں بلیٰ(نعم نعم) کو دو دفعہ تکرار کرنے کے بدلے ایک دفعہ لبیک کہتے ہیں اور یہاں نہ ایک بار لبیک اور نہ  ہی دو بار لبیک  «لبّيک اللّهم لبّيک » اور نہ تین بار  نہ چار بار  لبیک «لبّيک لا شريک لک لبّيک »اے حجر اسود تو گواہ رہنا کہ میں نے جو عالم الست یا عالم میثاق یا عالم ذرّ میں توحید ،نبوّت ،امامت اور ولایت کا اقرار کیا تھا ۔اس پر اب بھی لبیک کہتا ہوں ۔ اس لئے یہ پتھر حجر الاسعد بنا تھا جو کہ انسانیت کے لئے باعث سلامت اور سعادت ہے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا :  

1.          الحجر يمين الله في أرضه فمن مسحه مسح يد الله.

 حجر الاسودزمین میں   خدا   کا دائیاں ہاتھ ہے  جس نے اس کو مسح کیا گویا اس نے خدا کا ہاتھ مسح کیا ہے  اور خدا کے ساتھ مصافحہ کیا ہے اور خدا کے ساتھ بیعت کیا ہے تاکہ دوبارہ  سے  گناہ سےباز رہے۔

2.          الحجر يمين الله في الأرض يصافح به عباده .

 حجر الاسودزمین میں   خدا   کا دائیاں ہاتھ ہے   خداوند اس کے ذریعے سے اپنے بندوں سے مصافحہ کرتا ہے ۔

3.          الحجر يمين الله في الأرض فمن مسح يده على الحجر فقد بايع الله ان لا يعصيه .

 حجر الاسودزمین میں   خدا   کا دائیاں ہاتھ ہے  پس جس نے بھی  حجر اسود کو  مسح کیا  بیشک اس نے خدا کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ  وہ اس کی معصیت نہیں کریگا ۔

4.          الحجر عين الله فمن شاء صافحهُ بها.

5.          حجر الاسود خدا کی آنکھ ہے جو بھی چاہے اس کے ذریعے خدا کے ساتھ مصافحہ کریں ۔امام جعفر صادق ؑ نے اس سوال کے جواب  میں کہ کیوں لوگ کعبہ کے ارکان میں سے صرف  حجر اسود اور رکن یمانی کا استلام کرتے ہیں ؟!یعنی چومتے ہیں ؟فرمایا :کیونکہ  یہ دونوں عرش کے دائیائیں  طرف کی منزلت میں ہیں اور  خدا نے عرش کے دائیں  طرف کے استلام یعنی چومنے کا حکم دیا ہے ۔ اب اس سوال کے جواب میں کہ کیوں مقام ابراہیم کعبہ کے بائیں طرف واقع  ہے ؟ حضرت امام صادقؑ نے کہا :کیونکہ قیامت کے دن حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت محمدﷺ میں سے  ہر ایک کے لئے   ایک خاص مقام اور جگہ ہے ۔حضرت محمدﷺ کا مقام عرش کے دائیں طرف اور حضرت ابراہیم ؑ کا مقام  عرش الہی کے بائیں طرف  ہے ۔

 ایک اور روایت میں امام صادق ؑ فرماتے ہیں  :حجر الاسود لوگوں کا  حضرت امام مھدی ارواحنا لہ الفدا ٔ کے  مبارک ہاتھوں پر بیعت کرنے کی جگہ ہے جب آنحضرت ظہور فرماینگے اور پورے عالم کوعدل و انصاف بھر دینگے۔عقبہ ابن بشیر امام باقرؑ سے روایت کرتے ہیں  جب حضرت ابراہیم ؑ کو  کعبہ  تعمیر کرنے کا حکم ملا کہ اس کی دیواریں بلند کرے۔اورلوگوں کو اس کے مناسک اور اعمال کو سکھائے،حضرت ابراہیمؑ اور اسماعیل ؑہر دن کعبہ کے ایک حصے کو تعمیر کرہے تھے جب  حجراسود کے مقام تک پہنچے تو ابو قبیس  کی پہاڑ نے حضرت ابراہیم کو آواز دی : تمہارے لئے  میرے پاس ایک امانت ہے اور وہ حجر اسود ہے حجر اسود حضرت ابراہیم ؑ کو دیا اور آپ نے اسے مقام حجر اسود میں رکھ  دیا ۔ حضرت علی ؑ نے اس یہودی کے سوال کے جواب میں، کہ وہ کون سا  پتھر ہے   جوسب سے پہلا  زمین کے اوپر رکھا گیا ہے فرمایا :تم کہتے  ہو کہ وہ پتھر جو بیت المقدس میں ہے  ،نہیں  !تم جھوٹ بولتے ہو پہلا پتھر وہی ہے جسے حضرت آدم نے اپنے ساتھ بہشت سے لے کے آیا تھا ۔خدا کی قسم آپ نے سچ فرمایا ۔ اس  مطلب کو میں نے حضرت موسیٰ کی املا  اور خط   ہارون میں دیکھا تھا ۔ پیامبر اکرمﷺ نے فرمایا : جس دن قریش  کے درمیان حجر اسود کو اپنی جگہ  نصب کرنے پر جھگڑا ہوا ،میں نے اپنے ہاتھوں سے اسے اپنے مقام پر رکھ دیا ۔

شیخ  صدوق ؒ کی روایت کے مطابق عبدالملک کے زمانے میں جب حجّاج ثقفی نے خانہ کعبہ کا کام مکمل کرلیا ،تو امام سجّادؑ سے حجر اسود کو اپنی جگہ رکھنے کی درخواست  کیا ۔حضرت امام سجاد ؑ اپنے دست مبارک  اسے اپنے مقام پر رکھ دیا ۔ ایک روایت کے مطابق جو امام صادق ؑ سے نقل ہوا ہے   :جو کچھ اس عالم طبعیت میں ہے وہ عالم مثال کی ایک  سایہ اور نمونہ ہے ۔اور عالم مثال،عالم مجردات  کا نمونہ ہے اور عالم مجردات  اسمأ  حسنای الہی کےسایہ اور نمونہ ہیں  مختصر یہ کہ  الہی نظام  ، عقلی نظام اور نظام طبیعی کے لئے مایہ اور سرچشمہ ہے  ہا ں یہ حقیقت صرف کعبہ کے ساتھ خاص نہیں ہے یعنی جس طرح کعبہ عوالم بالا میں بن جاتا ہے اسی طرح  قرآن ،نماز ،روزہ ،حج وعمرہ اور دوسری عبادات و آیات الھی بھی ہیں اگر یہ معلوم ہو جائے کہ نماز مومن کا معراج ہے  تویہ  عروج فقد نماز کے ساتھ مخصوص نہیں ہے لیکن چونکہ نماز دین کا ستون ہے   اس لئے معراج اس پر بہتر صدق آتا ہے 

ولایت کے لئے بھی چار مراحل ہیں  حضرت علی ؑ کا ارشاد ہے         : «مثل الإمام مثل الكعبة إذ تؤتى ولا تأتي »[3] .  امام کی مثال کعبہ کی مثال ہے   لوگ کعبے کی طرف جاتے ہیں کعبہ لوگوں کی طرف نہیں جاتا ہے

جب کوئی انسان ان چار مراحل کو طے کرتا ہے ، تو اس کا قلب  اوردل  عرش الہی بن جاتا ہے۔

«قلب المؤمن عرش الرّحمن »[4] .

حکما کا نظریہ یہ ہے کہ ہر موجود کے لئے تین مراحل سے گزرنا ضروری ہے :

1ـ مادی ،جو کہ عالم طبیت میں ہے

2.مجرد، جو کہ عالم برزخ ا ور مثال میں ہےمثلا دنیا اور ماورای دنیا ہے قوس نزولی اور قوس صعودی میں

3.عقل جو کہ تجردات عقلی کے وجود میں ہے

لیکن عرفا کے نزدیک ہر چیز کے لئے  وجود کے چار مراحل ہیں :

1. عالم طبيعت .

2. عالم مثال .

3. عالم عقلى .

4. عالم الهى .

کعبہ کے لئے ایک وجود مادی ہے اور وہ مکہ مکرمہ ہے ۔

کعبہ کے لئے ایک وجود برتر ہے  جو عالم مثال میں ہے ۔

کعبہ کے لئے  عالم عقل میں ایک اوروجود ہے  جو کہ عرش الہی ہے ۔

کعبہ کے لئے تسبیح وتہلیل وتکبیر اورتمحیدکے اندربھی ایک وجود ہے جو کہ مقام الوہیّت ہے  ۔

اگر حاجی زمین اندیش ہوتو وہ  اس کعبہ کےگرد  طواف کرتا ہے اور  فقد اس کی فکر یہ  ہوتی ہے کہ طواف کے شرعی حدود سےجو تقریبا    5/26 ذراع یا 13متر اور کچھ زیادہ  ہے باہر نہ نکلے ۔  

لیکن جس کی ہمت بلند اور فکر اونچی ہو وہ بیت المعمور کے گرد طواف کرتا ہے  اگر طواف کرنے والے کی فکر دوسروں سے زیادہ عمیق اور گہری ہو تو وہ عرش الہی کا طواف کرتا ہے اور اس کا دل گویا عرش الرحمان ہے۔

حدیث میں آیا ہے  امام سجاد ؑ نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا : تمہاری نظر میں اس سال زائرین  خانہ  خدا (حاجیوں)کی تعداد کتنی ہے؟ تو اس نے کہا : چار لاکھ یا پانچ لاکھ  افراد فریضہ حج کو انجام دے رہے ہیں  ۔پھر اس نے کہا :   «ما أكثر الحجيج ؟» حاجیوں کی کتنی زیادہ  تعداد ہے ۔  امام سجّادؑ نے فرمایا :اگر چہ شور وشرابہ اور ضجّہ ونالہ  زیادہ ہے لیکن حقیقی اور واقعی حاجی بہت کم ہیں  «ما أكثر الضجيج وأقلّ الحجيج ».

اس دوران امام ؑ نے اسے انوار ملکوت کے  کچھ  جھلکیاں  دیکھائے  اس نے بہت سے لوگوں کو حیوانوں کی شکل ا ورصورت میں دیکھا۔اس کے بعد امام سجادؑ نے فرمایا : وہ لوگ جو انسانوں کی شکل میں ہیں  وہ قرآن وعترت سے متمسک ہیں اور نبوت ورسالت و ولایت پر ایمان اور یقین رکھتے ہیں۔ان کے ظاہر و باطن پر دین   حاکم اور  کار فرما ہے  ۔ اس لئے ان کے ظاہر اور باطن انسانی ہے ۔ لیکن وہ لوگ جو قرآن اور عترت ؑ کو ایک دوسرے سے جدا  سمجھتے ہیں  ان کا کہنا ہے کہ رسو ل خداﷺ نے اپنےجانشین کو معین کرنے میں اجتھاد سے کام لیا ہے

وہ اس آیہ مبارکہ  (نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ)[5]کےمصداق ہیں  کیونکہ قرآن اور عترتؑ  کےدرمیان جدائی ناممکن ہے ۔ قرآن کو عترتؑ کے بغیر  ،قر آن حقیقی نہیں کہا جاسکتا ہے ہاں اسے ظاہر قرآن ضرور کہا جاسکتا ہے۔پس  جس نے عترت ؑ کو قبول نہیں کیا،  حقیقت میں اس نے قرآن کو قبول نہیں کیا ہے  ۔  اس حدیث کے ذیل میں امام سجاد ؑ ارشاد فرماتے ہیں :  وہ لوگ جنھوں نے دین کو ظاہر اور باطن میں اس کے تمام ابعاد کے ساتھ قبول کیا ہے  یہ لوگ بہت ہی نورانی ہیں  جیسا کہ ایمان کے مختلف درجات ہیں  مومنین کے بھی متفاوت درجات ہیں  ۔ بعض روایات  مومنین کے لئے چار سو درجات اور مراتب بیان ہوئے ہیں ۔ اور دس درجے جو امہات درجات کہلاتے ہیں ،ذکر ہوا ہے حضرت سلمان محمّدیِ ان تمام دس درجوں کے  حامل تھے اور آپ  « سلمان منّا أهل البيت » کے مصداق ہیں۔



[1] . سوره نور، آيه 51.

[2] . سورهاحزاب ، آيه 72.

[3] . بحارالانوار، جلد 36 صفحه 353..

[4] . بحارالأنوار، جلد 55 صفحه 39.

[5] . سوره نساء، آيه 150.