سوال جلد ی ارسال کریں
اپ ڈیٹ کریں: 2024/6/30 زندگی نامہ کتابیں مقالات تصویریں دروس تقریر سوالات خبریں ہم سے رابطہ
زبان کا انتخاب
همارے ساتھ رهیں...
فهرست کتاب‌‌ لیست کتاب‌ها

مجاہد کربلا ذیشان حیدر

مجاہد کربلا

ذیشان حیدر صاحب ،مدرسہ قرآن  وعترت،قم ایران

جب بھی افق پر محرم کا چاند نمودار ہوا ہوتاہے تو ساری کا ئنات  حسین علیہ السلام و اصحاب حسین علیہم السلام کے غم میں ڈوب جاتی ہے اور ہر طرف انہیں مقدس ہستیوں کا ذکر ہو تاہے کربلامیں جو بھی امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھا اس کا کردار بے مثال تھا ، لیکن میں اس شخصیت کا ذکر کرنا چاہتاہوں جو شہدا ء کربلا میں سب سے کمسن تھا، لیکن اس کاکارنامہ آج بھی تاریخ کے اوراق پر چمک رہاہے۔

یوں تو دنیا میں نہ جانے کتنے بہادر گزرے کہ انہوں نے میدان سے راہ فرار اختیار نہیں کی ،مگروہ جب بھی میدان میں گئے توان کے ہاتھ میں اسلحہ ہوتاتھا جس کے ذریعہ وہ جنگ کیا کرتے تھے  مگر دنیا میں ایک بہادر ایسا بھی گزرا کہ جس نے جنگ تو کی مگر کسی اسلحہ کا سہارا نہیں لیا وہ جب میدان میں گیا تو اس کے ہاتھ میں نہ تلوار تھی نہ کوئی اسلحہ جس کے ذریعہ وہ میدان میں جنگ کرتا اس مجاہد کو تاریخ " علی اصغرعلیہ السلام " کے نام سے یاد کرتی ہے کربلا کے میدان میں بڑے بڑے بہادر نظر آئے مگرجو کام اس چھے ماہ کے بچہ نے انجام دیا وہ کسی اور مجاہد نے انجام نہیں دیا، کربلا کے میدان میں جو بھی لڑنے گیا اس کے ہاتھ میں  تلوار تھی مگر علی اصغرعلیہ السلام اپنے ہاتھ میں تلوار لیکر نہیں گیا وہ بچہ کیا تلوار اٹھائے گاجو اپنی ماں کے دودھ سے سیراب بھی نہیں ہوا۔

امام حسین علیہ السلام جناب علی اصغر ؑ کو اپنے ہاتھوں پرلئے فوج اشقیا کے سامنے آئے اورپانی کا مطالبہ کیا اس مطالبہ  پر حسینؑ کو پانی تو نہیں ملا مگر تیرنے بچہ کی گردن کوچھید دیا چھے ماہ کا شیر خوار باپ کے ہاتھوں پر منقلب ہوگیا ،مگر اس کے بعد جو کچھ ہوااس کو دیکھ کر یزیدی فوج کا ہر فرد رو پڑا جب علی اصغرؑ کی گردن پر تیر ستم لگا توبچہ شدت درد سے رویا نہیں بلکہ مسکرانے لگا۔

بقول پنڈت نہرو: "حسین ؑکا یہ بچہ اتناکمسن تھا کہ اس کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ تیرکھاکر رویا جاتاہے یاہنسا جاتاہے"

دشمن اسلام محو حیرت تھے کہ آخر یہ بچہ مسکرایاکیوں ، یہ حیوان نماانسان کیاسمجھ سکتے تھے کہ علی اصغرؑ کیوں مسکرائے ،اسلئے کہ ان کے دل مردہ ہوچکے تھے حقیقت میں ان ہی لوگوں کیلئے قرآن نے کہاہے کہ :" أُوْلَـئِكَ كَالْأَنْعامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ"(سورہ اعراف/179) یہ لوگ گویا جانور ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ' ان کے جسم توزندہ تھے مگر روحیں مردہ ہوچکی تھیں ورنہ ایک چھے ماہ کے بچہ کا کیاقصور تھا جو اسے شہید کردیا، شاید علی اصغرؑ مسکراکر دنیا والوں کو بتاناچاہتے ہوں کہ یاد رکھو جب بھی حق پر جان دینے کی بات آئے تو غمگین نہ ہونا بلکہ حق پر جان دینا تو مسکراتے ہوئے، تاکہ دنیا بھی تم کو یاد رکھے اور اہل دنیا کو یہ معلوم ہو جائے کہ جو بھی حق پر جان نثار کرتاہے وہ خوشی خوشی اس دنیا سے جاتاہے ظالم حق پرستوں کی گردن کوکاٹ سکتے ہیں مگر ان کے کٹے ہوئے گلے تلاوت کرکے بتاتے ہیں کہ تم ہمارے سروتن میں جدائی توپیدا کرسکتے ہیں مگر ہمارے رابطہ حیات کو منقطع نہیں کرسکتے ،ہم اس کے بعد بھی اپنے فرائض کو انجام دیتے ہیں اس لئے کہ جو راہ خدامیں قتل ہوتاہےاس کیلئے قرآن آواز دیتاہے۔" وَلا تَحسَبَنَّ الَّذينَ قُتِلوا في سَبيلِ اللَّهِ أَمواتًا ۚ بَل أَحياءٌ عِندَ رَبِّهِم يُرزَقونَ " اور جو لوگ خدا کی راہ  میں شہید کئے گئے ہیں انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھنا بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار سے رزق پاتے ہیں۔(سورہ آل عمران/169)ہو سکتاہے کہ بعض افراد یہ خیال کریں کہ علی اصغرؑ امام کی اولاد میں سے تھےلہذا ان کے اندر جذبہ قربانی پیدا ہونا ایک فطری عمل تھا، توان کو ہم یاد دلائیں گے کہ اگر یہ جذبہ قربانی ولد امام  ہونے کی وجہ سے تھا تو جناب نوح ؑ کا بیٹا کبھی گمراہ نہ ہوتا اسلئے کہ وہ بھی تو نبی زادہ تھا۔ درحقیقت بچہ کی تربیت میں ماں کا بہت اہم کردار ہو تاہے بچہ کی سب سے پہلی درسگاہ آغوش مادر ہوتی ہے اگر ماں کا بچہ بھی نیک کردار ہوگا،نہیں تو بد کردار ماں کا بچہ بھی بد کردار ہوگا،جناب علی اصغرؑ کو ابتداء عمر سے ہی حسینؑ پر جان نثار کردنے کی تعلیم دی تھی جس کا ثبوت علی اصغرؑ نے کربلا میں پیش کیا۔

اگر آج ہرماں جناب علی اصغرعلیہ السلام کی طرح اپنے بچوں کی تربیت کرے تو قوم کو وہ بچے ملیں گے جو خوشی خوشی امام حسین علیہ السلام پر اپنی جان قربان کریں،شاید اسی لئے شاعر نے کہاہے کہ:

   اے بیبیوں تقدس فضہ کا واسطہ        بچوں کو لوریاں نہیں قرآن سنائیے

ہوکرجوان جوبابری مسجد کو چھین لیں     سوبار  روز قصہ خیبر سنائیے